کافر کے لیے دعاۓ مغفرت کرنا کیسا ہے

مسئلہ: کافر کے لیے دعاۓ مغفرت کرنا کیسا ہے

مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ کافر کے لئے دعائے مغفرت کرنا کیسا قران و حدیث کی روشنی میں جواب ارسال فرمائیں۔  

المستفتی: رفاءالحسن سنبھلی  

بِـسْمِ الـلّٰـهِ الـرَّحْـمٰـنِ الـرَّحِـيْـمِ

الــجـواب بـعـون الـلـه الـعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لـلـحـق و الــصـواب:

کافر و مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنا ناجائز و حرام ہے رب کریم ارشاد فرماتا ہے: 

مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْم. (سورة التوبة، آية 113)

ترجمہ: نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان کے لیے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں

امام ابن نجیم مصری رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:

لايجوز الدعاء بالمغفرة للمشرك. (البحر الرائق، جلد 1 ،ص 576

مشرک کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں ہے

علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

الحق حرمة الدعاء بالمغفرة للكافر. (درمختار مع رد المحتار ،جلد 2 ،ص 236)

حق یہ ہے کہ کافر کے لیے دعائے مغفرت حرام ہے

لیکن ابوالعباس شہاب الدین احمد بن ادریس قرافی مالکی رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:

أن يقول اللهم اغفرله (لمن كفر بك) فيكون ذلك كفرا، لأنه طلب لتكذيب الله تعالى فيما أخبر به، و طلب ذلك كفر، فهذا الدعاء كفر. (الفروق، جلد 4، ص 403)

ترجمہ: کافر کے لیے دعائے مغفرت کرنا کفر ہے؛ کیونکہ یہ الله تعالى کی خبر کی تکذیب و تردید چاہتا ہے جو کہ کفر ہے۔

لیکن امام اہل سنت، سیدی اعلی حضرت قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

أقول : ومانحاإلیه العلامة الشامی من عدم جواز عفوالکفر عقلا فإنما تبع فیه الإمام النسفی صاحب عمدۃ الکلام وشرذمة قلیلة من أهل السنة، والجمهور علی امتناعه شرعا وجوازہ عقلا کما فی شرح المقاصد و المسامرۃ وغیرھما وبه تقضی الدلائل، فهوالصحیح وعلیه التعویل ،فإذن الحق ماذھب إليه البحروتبعه فی الدر. (فتاویٰ رضويه ،جلد 29 ،ص 740)   

ترجمہ: علامہ شامی کا یہ قول کہ کفر کی معافی عقلاً جائز نہیں صاحبِ عمدۃ الکلام امام نسفی اور اہلِ سنت کے مختصر گروہ کی اتباع میں ہے، جب کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک کفر کی معافی شرعاً ممتنع و محال ہے اور عقلاً جائز و ممکن ہے جیسا کہ شرحِ مقاصد اور مسامرہ میں ہے، اور یہی دلائل کا مقتضا ہے، لہٰذا یہی درست اور قابلِ اعتماد ہے، تو اب حق بات وہ ہے جو البحرالرائق میں اور صاحبِ درمختار نے اس کی پیروی کی ہے (یعنی کافر کے لیے دعائے مغفرت ناجائز و حرام ہے کفر نہیں)

   یہاں سے معلوم ہوا کہ امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے اپنے بعض فتاویٰ میں کافر کے لیے دعائے مغفرت کو جو کفر لکھا ہے وہ بعض فقہاء کے قول پر ہے، چنانچہ آپ ایک فتوے میں لکھتے ہیں

کافر کے لیے دعائے مغفرت و فاتحہ خوانی کفر خالص و تکذیب قرآن عظیم ہے کما فی العالمگیریة وغيرها. (فتاویٰ رضويه ،جلد 21 ،ص 228). وَالـلّٰـهُ تَـعَـالٰـي أَعْـلَـمُ بِـالـصَّـوَابِ

كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر:

أبـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري

خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـی94