پیشہ ور بھکاری کا مانگنا اور بدعا سے بچنے کے لیے ایسے کو دینا کیسا

MASALA NO. #06
 

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل روڈوں پہ بھیک مانگنے والے افراد کی کثرت ہے، بظاھر ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں لیکن مسلسل مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان میں سے بعض کی عادت یہ ہے کہ اگر کچھ نہ دیا جائے تو کہتے ہیں کہ ” اتنی رقم لازمی دینی پڑے گی ورنہ ہم بدعا دیں گے “جس کی وجہ سے لوگ ڈر جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ رقم انہیں دے دیتے ہیں   پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کے افراد کا مانگنا اور نہ دینے پر بدعا کی دھمکی دینا کیسا؟ نیز ان کی بدعا سے بچنے کے لیے ان کو کچھ نہ کچھ رقم دے سکتے ہیں یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایۃ الحق و الصواب

    کس شخص کے لیے سوال حق ہے اور سک کے لیے نہیں؟ اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ جس کے پاس اپنی ضروریات شرعیہ کو پورا کرنے کی مقدار مال موجود ہو یا اتنا مال موجود تو نہ ہو لیکن کما کر ضروریات پوری کر سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے سوال کرنا حرام ہے۔ مثلأ جس کے پاس ایک دن کا کھانا موجود ہے یا کما کر کھا سکتا ہے تو ایسے شخص کا کھانے کے لیے سوال کرنا جائز نہیں۔ یونہی بدن چھپانے کے لیے کپڑوں کا بندو بست کر سکتاہے تو اس کے لیے کپڑے کے لیے سوال کرنا جائز نہیں و علی ھذا القیاس اور دینے والے کو اس کی یہ کیفیت معلوم ہے تو تو اسے دینا بھی حرام ہے کیونکہ یہ گناہ پر تعاون ہے اور گناہ پر تعاون بھی حرام ہے۔ البتہ اگر کسی کے پاس ضروریات کی مقدار مال موجود نہیں اور وہ اتنا کما بھی نہیں سکتا اور سوال کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تو ایسے شخص کا بقدر حاجت سوال کرنا جائز ہے اور اسے دینا نہ صرف جائز بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔

    آج کل سڑک بازار چوک فوڈ اسٹریٹ ٹریفک سگنل بس اسٹاپ ٹرین اور ۔ختلف گاڑیوں وغیرہ میں یونہی مساجد اور مزارات کے باہر جو افراد بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ عموما سوال کے حقدار نہیں ہوتے بلکہ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں مال جمع کرنا اور اسے بڑھانا ان کا مقصد ہوتا ہے حتی کہ گھر کے چھوٹے بڑے سب افراد مانگتے ہیں ایک دن میں ہزاروں روپے جمع کرلیتے ہیں اور ویسے بھی لاکھوں لاکھ کی مالیت کے مالک ہوتے ہیں بلکہ مختلف رپورٹس کے مطابق اب تو بڑے شہروں  میں گداگری کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے اس میں باقاعدہ ٹھیکے داری کا نظام بھی متعارف ہوچکا ہے جس میں مخصوص بھکاری کو مختلف جگہوں پر مانگنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے اور دوسرے بھیکاریوں کو اس حدود میں داخل ہونے سے منع کر دیاجاتا ہے۔ الغرض یہ افراد ضروریات شرعیہ کو پورا کرنے کے لیے نہیں مانگتے بلکہ محنت و مزدوری کرنے کی بنسبت مانگنے کو کمائی کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلسل مانگتے ہی رہتے ہیں پھر جب مانگنا ان کا پیشہ ہے تو اس کے لیے یہ ایسا طریقہ اپناتے ہیں  جس کی وجہ سے انہیں زیادہ سے زیادہ رقم ملے مثلاً : بعض اللہ کا واسطہ دیتے ہیں حالانکہ حدیث پاک میں ایسے شخص کو ملعون کہا گیا ہے۔ بعض چھوٹے بچوں سے منگواتے ہیں جو پیسے لینے کے لیے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں حالانکہ جس طرح جود بلا ضرورت شرعیہ بھیک مانگنا حرام ہے بچوں سے منگوانا بھی حرام ہے بعض چھوٹ بول کر بیماری، معذوری یا کوئی اور مجبوری، مثلاً : جیب کٹ جانا، پیسے چوری ہو جانا یا کرایہ ختم ہو جانا وغیرہ ظاہر کرتے ہیں حالانکہ چھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے بعض بدعائیں دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں حالانکہ بلا اجازت شرعی سک مسلمان کو اس طرح کی دھمکی دینا یا اس کے لیے بدعا کرنا جائز نہیں۔ یادررکھیے ! جو افراد بلا ضرورت شرعی سوال کرتے ہیں ان کے بارے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 

    وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گے کہ ان کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا اور فرمایا : جو اپنا مال بڑھانے کے لیے مانگتا ہے وہ اپنے لیے جہنم کے انگارے اکٹھے کرتا ہے اب اس کی مرضی کہ کم جمع کرے یا زیادہ۔ 

    ایسے افراد کا مانگنا بلا شبہ حرام ہے اور ان کے پیسہ ور ہونے کا علم ہونے کے باوجود انہیں دینا ضرور گناہ پر تعاون ہونے کی وجہ سے حرام اور گناہ ہے اگرچہ یہ اللہ کا واسطہ یا بدعا دینے کی دھمکی دیتے رہیں۔ ان کے وجائے اپنے قرب و جوار میں بسنے والے عزیزوں اقارب اور رستہ داروں میں سے اصل مستحق افراد کی مدد کی جائے کہ انہیں دینا بہت بڑے ثواب کا باعث ہے۔ 

    اور جہاں تک ا‌ن کی بدعا قبول ہونے کی بات ہے تو وہ انشاء اللہ قبول نہیں ہوگی۔ علماء نے احادیث کی روشنی میں واضح طور پر فرمادیا کہ اگر کسی نے دوسرے پر کوئی ظلم‌ نہیں کیا تو اس کے لیے کی جانے والی بدعا اللہ پاک قبول نہیں فرماتا، بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 

    جو لوگوں کی ہلاکت چاہتا ہے وہ خود سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے