امام اھل سنت کی اپنے مرشد اور مرشد خانہ سے عقیدت و محبت



  امام اھل سنت کی اپنے مرشد اور مرشد خانہ سے عقیدت و محبت

       اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے بہت سے انبیاء کرام کو مبعوث کیا اور اس کے بعد اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور اپنے پیارے حبیب کی امت میں کثیر اولیاے کرام کو بھیجا جنہوں نے اس دین کی بہت خدمت کی اور انہیں خدمت کرنے والی ہستیوں میں سے ایک ہستی ایسی ہے جس ‌ہستی کا چار سو ڈنکا بج رہا ہے ہندوستان ہو یا پاکستان، عراق ہو یا افغانستان، ملیشیا ہو یا انڈونیشیا ہر جگہ ان کو دنیا امام اہل سنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے نام سے جانتی ہے 



اعلی حضرت کی زندگی جامع زندگی ہے تفصیل تو یہاں ممکن نہیں لیکن آپ کی زندگی کے ایک حسین گوشۂ پر کچھ لکھا جاتا ہےطریقت کے اصول میں سے ایک اہم اصل ہے تعظیم مرشد اور اعلیٰ حضرت کی زندگی اس سے معطر ہے چنانچہ آپ کے پیر و مرشد کا نام حضرت سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی علیہ الرحمہ ہے اور آپ کے پیر و مرشد مارہرہ شریف کے رہنے والے تھے 


           اعلی حضرت جب سے آپنے پیر و مرشد سے بیت ہوۓ تب ہی سے آپ اپنے پیر و مرشد کی آخری وقت تک ادب و تعظیم کرتے رہے اور اپنے پیر و مرشد کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پیر و مرشد کی تعظیم کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ آپ مارہرہ شریف کے اسٹیشن سے خانقہ برکاتیہ تک برہنہ پیدل تشریف لے جاتے سبحان اللہ اعلی حضرت کا اپنے پیر کی تعظیم اور ان سے محبت کرنا کس قدر عمدہ تھا اور عمدہ کیوں کر نہ ہو امام احمد رضا جو ہوۓ اللہ ہمیں بھی اس طرح اپنے پیر و مرشد کی تعظیم اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین بجاہ النبی الامین


       اعلی حضرت کو اپنے پیر و مرشد سے ان کی ظاہری حیات مقدسہ میں ملاقاتوں کا شرف کئ بار ملا وہ اپنے مقام پر ساری اہمیت کے حامل ہیں البتہ اتنا تو بالکل واضح ہے کہ مرشد بر حق کے فیضان سے پہلے ہی دن سے ایسے سرشار ہو چکے تھے شریعت کے امام والد ماجد کی تعظیم کے ذریعے ہوۓ تھے تو طریقت کا امام مرشد صادق نے بنادیا

       اسی کو حضرت علامہ حسنین رضا خان نوری بریلوی نے تحریر فرمایا: 

       شریعت کی تعظیم و تربیت باپ سے ملی تھی اور طریقت کی تکمیل پیر و مرشد نے کرا دی اسی وقت سے اعلی حضرت قدس سرہ شریعت و طریقت دونوں کے امام ہو گئے  

اپنے مرشد سے امام اہل سنت کی عقیدت و محبت کس قدر تھی اور مرشد کا فیضان کس قدر عام و تام تھا خود امام اہل سنت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں آپ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں : 

      "ہاں ہاں یہ ادنی خاک بوسی آستان رفیع غلمان منیع بندگان بارگاہ عرفان پناہ اقدس حضرت آقاے نعمت دریائے رحمت اعرف العرفاء الکرام مرجع الاولیاء العظام  السحاب الها مر بفيض القادر و العباب الزاخر بالفضل الباهر ذو القرب الزاهر و العلو الظاهر و النسب الظاهر ملحق الاصاغر بالجلة الاكابر معدن البركات مخزن الحسنات من آل محمد سيد الكائنات عليه و عليهم افضل الصلوات وارث النجدات من حمزة الحمزات القمر المستبين بالنوم المبين من شمس الدين ابي الفضل العظيم و الشرف الكريم سيدنا و مولانا و ملجانا و ماوانا شيخى و مرشدى كنزى و دخرى ليومى و غدمى اعلى حضرت سيدنا السيد الشاه آل رسول الاحمدى  فاطمى حسينى قادرى بركاتى واسطى بلجرامى مارهرى رضى الله تعالى عنه و اجرب و اعظم قرية منه و اشرق علينا من نوره التام و افاض علينا من بحره الطام و جعلنا من خدمه فى دار السلام بفضل رحمة عليه و على آبائه الكرام و الحمد الله ابد الآبدين "

(فتاوی رضویہ،ج:5،ص:166)


       یہ تو اپنے مرشد کامل سے عقیدت محبت کا اندازہ ہے اب ذرا مرشد خانہ سے عقیدت و محبت بھی ملاحظہ فرمائیں- 

حضرت ابو الحسن نوری میاں مارہروی علیہ الرحمہ کی شان میں مکمل ایک نظم ہی تحریر فرما دی جس کا پہلا مصرع یہ ہے 

بر تر قیاس سے ہے مقام ابو الحسن 

سدرہ پوچھ رفعت بام ابو الحسن

 

      نیز اعلی حضرت نے اپنے قصیدہ نور کے آخری شعر میں بھی شاہ ابو الحسن احمد نوری کی عظمت بیان فرمائی ہے میرے آقا اعلی حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : 

اے رضا یہ احمد نوری کا فیض نور ہے 

ہوگئی میری غزل پڑھ کر قصیدہ نور کا