رشتے اور ہماری دوریاں
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے بچپن میں ہماری امّاں نے نانی کے گھر جانے یا کسی بھی قریبی عزیز کے گھر جانے سے صرف اس لیے گریز کیا ہو کہ بھئی وہ نہیں آتے تو ہمیں بھی کیا ضرورت ہے، یا یہ کہ ہم جائیں گے تو وہ بھی آئیں گے، یا ان کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔ اس پرائیویسی کے نام پر ہم اپنے قریبی رشتوں، اپنے اپنوں سے بہت دور ہوگئے ہیں۔
ہماری ممانی، پھوپھو، خالہ، چچی نے کبھی ہمارے جانے پر منہ بنایا ہو یا خاطر داری میں کوئی کمی چھوڑی ہو؟
سادہ سا مینو بھی اتنا مزے کا ہوتا تھا کہ ہم بھوک سے بھی زیادہ کھا لیتے تھے۔ پتہ ہے کیوں؟
کیونکہ سب اکٹھے ہوتے تھے، ایک دوسرے کے بچوں کو پیار سے کھلاتے۔ دسترخوان پر رونق ہی رونق ہوتی، اور ہنسی مذاق میں بھوک بھی زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ امیاں کہیں بھی جا کر مہمان نہیں بن جاتیں کہ میزبان تھکاوٹ کا شکار ہو۔ سب ہی کچن میں گھس کر تھوڑے وقت میں کھانا تیار کر لیتی تھیں۔ مہمانوں کی خاطر داری کے لیے نہ کسی پانچ ستارہ ہوٹل کے مینو کی ضرورت ہوتی تھی اور نہ ہی طرح طرح کی ڈشیں بنا کر اپنی دھاک بٹھانے کی۔ جو کچھ بنا ہوتا وہی سب مزے سے کھا لیتے تھے۔
مٹر والے چاول، مرغی کا شوربہ، دودھ والی سویاں، گڑ والے چاول، گڑ والا دلیہ، میوے والا گڑ، کھوئے والا گجریلا، ساگ، چاول کے آٹے کی روٹی، دال والی روٹی کے ساتھ اچار۔ ناشتے میں آلو یا مولی کے پراٹھے اور پیالوں میں پیش کی جانے والی چائے کا مزہ آج تک زبان کو یاد ہے۔
جو پارٹی کھانے میں مدد نہیں کرا سکتے تھے یعنی ہم کزنز، ان کی ڈیوٹی بعد میں دسترخوان سمیٹنا اور برتن دھونا ہوتی تھی۔ لڑکے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے ترتیب سے چارپائیوں پر بستر لگاتے جاتے اور سونے کا انتظام ہو جاتا۔ امی، خالائیں، ممانی اور نانی (جنہیں ہم بی بی جان کہتے تھے) مل کر باتیں کرتیں اور سبزیاں بناتی جاتیں۔ یہی ترتیب ہر گھر میں، ہر چھٹیوں میں بدلتی رہتی۔ عید اور تہواروں پر سب سے زیادہ خوشی نانی کے گھر یا ماموں کے گھر جانے کی ہوتی۔
کپڑے سب کے ایک ہی ڈیزائن کے ہوتے۔ وہ بھی جن کی زیادہ حیثیت ہوتی اور وہ بھی جن کی کم۔ کوئی مقابلہ بازی نہیں تھی، اپنوں میں برابری تھی۔ عزت کا معیار صرف عمر تھی؛ جو بھی بڑا ہے اس کی عزت اور اس کی بات ماننا ہر چھوٹے پر فرض تھا، اور غلطی پر ڈانٹنا ہر بڑے کا فرض۔
سادہ لوگ تھے، سادہ کلیہ تھا۔ نہ دکھاوا، نہ شو شا۔
یہ جو آج کل رشتوں کے نام پر مزاح اور طنزیہ جملے لکھے جاتے ہیں، مجھے بہت دکھ دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر پھوپھو، چاچی، ممانی، ساس یا بہو بنتا ہے۔ رشتہ برا نہیں ہوتا، اس میں موجود انسان اس کو خراب بناتا ہے۔
خدارا! ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے رہیں، ملتے جلتے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے یا ان کے جانے کا وقت آ جائے اور یہ دکھ رہ جائے کہ زندگی میں مل نہ سکے، اور پھر فوتگی کے وقت چہرہ دیکھنے کے لیے بھاگنا پڑے۔ زندہ رشتوں کی قدر کریں، اپنے پیاروں کی قدر کریں۔
اپنی ضد اور انا میں ہم نے اپنے بچوں کو ان کے رشتوں سے دور کر دیا ہے۔ حالانکہ بچوں کو اپنے ہم عمر کزنز سے ملنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے۔ ہم بڑوں نے خود ہی ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہم رشتے بھول گئے ہیں۔ ہم چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، حالانکہ چیزیں ساتھ نہیں دیتیں۔ رشتے ہی طاقتور ہوتے ہیں اور ہم رشتوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
پوری کوشش کریں کہ رشتوں کو جوڑے رکھیں۔ ایسی دوریاں نہ آنے دیں کہ ملاقاتیں صرف کسی کے فوت ہونے پر ہی ممکن ہوں۔ کیا ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ کوئی مرے تب ہم بحالتِ مجبوری وہاں جائیں؟
جب ہم کہیں جائیں تو یہ خوشی دل میں ہو کہ میں اپنے پیاروں سے ملنے جا رہا ہوں۔ مجھے اس سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں چاہیے۔ ان کے پاس اس لیے جا رہا ہوں کہ وہ مجھے بہت پیارے ہیں۔ چاہے ہم اس کام کے لیے کم وقت نکالیں لیکن نکالیں ضرور۔
جو چلا جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا، چاہے جتنا مرضی رو لیں۔
خوشیاں تقسیم کرنے کی کوشش کریں، آسانیاں بانٹنے کی بھی۔
(منقول)