فضائل، خصائص و کمالات حضرت مولا علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ

 21رمضان المبارک وصال مولاۓ کاٸنات خوب ایصال ثواب کی کریں اور آپ کے 
توسل سے دعا کریں مستجاب ہوگ

 فضائل ، خصائص و کمالات حضرت مولا مشکل
 کشا  رضی اللہ تعالیٰ عنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
از مُحَمَّد  قاسم القادری غفر لہ
 خلیفہ چہارم جانشین رسول زوج بتول مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی  مشکل کشا شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم  کو اللہ تعالی ﷻ  نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز   فرمایا، تھا آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا گنجینہ بنایا تھا آپ مہاجرین اولین اور عشرہ مبشرہ میں اپنے بعض خصوصی درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتاز ہیں  آپکی قرآن فہمی حقائق شناسی بے مثل و بے مثال تھی خامٸہ قدرت نے عقل و خرد کے اس مقام عالیہ پر آپ کو فاٸز فرمایا تھا کہ جو مسائل دوسروں کے لۓ لا ینحل ہوتے تھے آپ ان کی آسانی سے گتھیاں سلجھادیتے تھے  جنگ بدر جنگ خندق وغيرہ تمام اسلامی جنگوں اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ جنگ فرماتے رہے اور کفار کے بڑے بڑے سورما بڑے بڑے نامور بہادر ذوالفقار حیدری سے مقتول ہوۓ 
امیر المٶمین حضرت سیدنا عثمان غنی کی شھادت کے بعد انصار و مہاجرین نے آپکے دست حق پرست پر بیعت کرکے آپ کو امیر المٶمنین منتخب فرمایا چار برس آٹھ ماہ نودن تک مسند خلافت کو سرفراز فرماتے رہے 
17 رمضان المبارک 40 ھ کو بدبخت عبدالرحمن ابن ملجم خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے ہوۓ آپکی مقدس پیشانی اور نورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدید طور پر زخمی ہوگۓ اور دو دن زندہ رہکر جام شہادت سے سرفراز ہوۓ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ 19 رمضان المبارک جمعہ کی رات میں آپ زخمی ہوۓ اور 21 رمضان المبارک شب یک شنبہ آپکی شہادت ہوٸی 
(تاریخ الخلفا  ٕ و ازالة الخفا ٕ و کرامات صحابہ وغيرہ ) 
،آپ کے مقام عالیہ رفیعہ اور  شان و عظمت  کے بیان میں ان گنت  احادیث کریمہ شاھد عدل ہیں  
ولادت با سعادت
تیرہ رجب المرجب بروز جمعة المبارک سنہ 600 ٕ کعبہ شریف  کے اندر پیدا ہوۓ 
سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی 
،جیساکہ روایت ہے : ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام ۔۔۔ولم يولد فی البيت الحرام قبله احد سواه ۔ قاله ابن الصباغ ۔
 حضرت علی شیر خدا  رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت  باسعادت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے اندر ہوئی۔علامہ ابن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ سے قبل خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی 
(  *المستدرک للحاکم جلدسوم صفحـ 483  نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،ص 84)  ــہ*

آپ کو مولود کعبہ کیوں کہتے ہیں 
حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانۂ کعبہ کے اندر ہوئی ، اسی وجہ سے آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے
 آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے،چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا 
آپ کے والد کا نام نامی اسم گرامی 
سیدنامولی علی رضی اللہ تعالی عنہ کےوالد کا نام  *پہرہ دارپیغمبر نازبردار رسول محافظ نبی کلیدبردارکعبہ شیخ مکہ سرادربطحاء  حضرت ابوطالب  تھے*

والدہ ماجدہ 
اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام  حضرت فاطمہ بنت اسدرضی اللہ تعالی عنہاتھا (مدارج النبوة ج 2 صفحہ 917 )
آپ کےوالد گرامی حضرت ابوطالب  نےآپ کانام مبارک  زید رکھا
جب کہ والدہ ماجدہ نےاپنےباپ کےنام پرآپ کانام  پر جو اسد تھا حیدر رکھا
 اور سرورکائنات باعث تخلیق عالم جناب محمـــدالرسول اللہ ارواحنافداہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ وحدہ لاشرک لہ کےاسم مبارک کی اتباع میں *عـــلی* رکھا آپکی والدہ نے  عرض کی آقا ﷺ خدا کی قسم مجھے غیب سے آوازیں آتی تھیں کہ فاطمہ اسکا نام علی رکھنا  میں نے اسکو چھپایا تھا  (مدارج النبوة جلد 2 صفحہ 917 اوراق غم صفحہ 149 )

آپ کی کنیت 
ابوالحسن ابوتراب
آپ کے القابات 
 امیرالمؤمنین 
یداللہ
 حیدرکرار یہ لقب خود تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے عطا فرمایا 
کرار کے معنی ہیں بار بار حملہ کرنے والا چونکہ آپ بھی بار بار دشمنوں پر حملہ کرتے تھے اسلۓ آپ کو کرار کے لقب سے ملقب کیا گیا 
(غیاث اللغات صفحہ 409 )
نفس رسول
 اسداللہ
 المرتضی 
شیر خدا 
اخ الرسول
 زوج البتول 
سید العرب 
اسد اللہ الغالب 
مولی المسلمین 
ابو الاٸمة الطاھرین 
طاہر مطہر 
مظہر العجاٸب والغراٸب 
دفاع المعضلات والمصاٸب 
باب العلم 
بہار چمنستان معرفت 
شمع شبستان ولایت 
وغیرہم
 آپ کےمشہورالقاب اور کنیات ہیں
شادی مبارک 
*حضرت سیدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی مبارک سنـ ۲ ــہ ھ میں تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم  کی دخترنیک اختر سیدہ  طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ  تقیہ نقیہ  خاتون  جنت  ملکٸہ فردوس بریں ام الحسنین حضرت  سیدتنا بی بی فاطمۃالزہراءسلام اللہ تعالی علیھاسےہوئی*

اس مقدس جوڑےکےنکاح کاحکم اللہ ﷻ نےدیا
چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا 
*ان اللہ امرنی ان ازوج فاطمة من علی اللہ تعالی نے مجھےحکم دیا ہیےکہ میں فاطمہ کی شادی علی سےکردوں*
(الطبرانی فی المعجم الکبیر جلد 10 صفحہ 156 و الھیشمی فی مجمع الزواٸد جلد 9 صفحہ 204 والمناوی فی فیض القدیر جلد 2 صفحہ 210 )
سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی 
،جیساکہ روایت ہے : ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام ۔۔۔ولم يولد فی البيت الحرام قبله احد سواه ۔ قاله ابن الصباغ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے اندر ہوئی۔علامہ ابن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ سے قبل خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی ۔ (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،ص 84)
حضرت علی اسلام کب لائے: 
 ابویعلی نے مولاۓ کاٸنات سے روایت کی کہ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شنبہ کے دن اعلان نبوت فرمایا میں نے دو شنبہ ہی کے دن اسلام قبول فرمایا  (مدارج النبوة صفحہ 917 )

شان علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم:
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ  سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ، 
حضرت زید ابن رقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
 اوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِیٌّ .  
 کہ  سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے
 (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:3728)
 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّی عَلِیٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ۔
 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی 
 (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر3827 )
حضور تاجدار کاٸنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا 
 ان علیا  مِنِّی وَاَنَا مِنْہ وھو ولی کل مومن بعدی  بے شک علی مجھ سے ہے   اور میں اس  سے ہوں میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے 
(صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699  و ترمذی ابواب المناقب باب مناقب علی ابن ابی طالب حدیث نمبر 3712 )
کرم اللہ وجہہ الکریم کی وجہ تسمیہ 
،اس کی وجہ نور الابصار میں اس یوں بیان کی گٸ ہے کہ
(وامہ)فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ"کرم اللہ وجہہ ۔
سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔  جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو "کرم اللہ وجہہ"(اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو مکرم  رکھے)کہا جاتاہے ۔   (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،85)
 عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ:"مُحِبُّکَ مُحِبِّی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی ۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :(ائے علی) تجھ  سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ  سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے 
(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد،6،صفحہ  239 حدیث نمبر:6067 والدیلمی فی مسند الفردوس جلد 5 صفحہ 316 حدیث نمبر 8307 )
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے : وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درہما یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورہا فوجدہا مرۃ فقال یا بلال رد ہذا إلی صاحبہ، وائتنی بالدرہم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر " . وأنی أظن ہذا مما لم یجب.
ترجمہ : سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کے لئے  ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے۔
( الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ نزھة المجالس وغيرہ ،)

غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، 

 عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ  رضی اللہ عنہ  أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ . قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِ